See page 37 for information on use of Actions in Aid of Civil Power and the Frontier Crimes Regulation for illegal detention and violation of human rights. Also see recommendations at end of report regarding repeal of FCR and other suggestions.
3. 3 ”ظلم کے ہاتھ“
پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج
اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ
پاکستانی فوجی جنوبی وزیرستان کے قبائلی عالقے فوجی حراست میں ہالکت میں رونما ہونے والی دوران حراست ہالکتوں، جبری
کھجوری کٹ کی چوٹی پر پوزیشن سنبھالتے ہوئے۔ جوالئی فروری دو ہزار گیارہ میں شام کی نماز سے کچھ دیر گمشدگیوں، تشدد اور دیگر بدسلوکیوں کے مقدمات کا
دو ہزار گیارہ۔ ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشن قبل جہانزیب کو، جو خیبر پختونخوا کے صوابی میں بامعنی احتساب نہیں ہوسکا ہے۔
1102 پاکستان کی مسلح افواج کو شورش زدہ قبائلی پولٹری فارمنگ کرتا تھا، گھر پر فوجیوں نے گرفتار
عالقوں میں وسیع اختیارات دیتا ہے۔ ہزاروں بغیر کوئی کر لیا۔ یہ آخری مرتبہ تھی جب گھر والوں نے انہیں درج ذیل ایمنٹسی انٹرنیشنل کی رپورٹ “ظلم کے ہاتھ”:
وجہ بتائے حراست میں لیے گئے ہیں۔ ان افراد پر تشدد زندہ دیکھا۔ ایک سال بعد ستائیس جون 2102 کو پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج اور طالبان
اور دیگر بدسلوکیوں کا بلکہ دوران حراست ہالکت کا جہانزیب کی الش ضلع ہری پور میں ملی جو ان کے کی زیادتیاں کا خالصہ ہے۔ (2102/910/33 .)ASA
خطرہ ہے۔ گھر سے اسی کلومیٹر کی دوری پر ہے، جہاں سے
انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ تمام متاثرین اور ان کے رشتہ داروں کے نام ان کی
شناخت کے تحفظ کے مدنظر تبدیل کر دئے گئے ہیں۔
آج تک اس موت میں مسلح افواج کے مبینہ کردار کے
بارے میں کوئی تفتیش نہیں ہوئی ہے۔ تاہم کئی شاہدین
نے آخری مرتبہ انہیں فوجی حراست میں دیکھا اور
پشاور ہائی کورٹ میں جہانزیب اور دوسروں کی
غیرقانونی حراست سے متعلق پٹیشن میں بیان جمع
کرایا ہے۔ اس مقدمے میں تحقیقات نہ ہونا یہ ثابت کرتا
ہے کہ کیسے سکیورٹی فورسز ان عالقوں میں بغیر
کسی پابندی کے سرگرم ہیں۔
ایمنٹسی انٹرنیشنل نے ایوب اور جہانزیب جیسے کئی
واقعات کی تفصیالت جمع کی ہیں۔ ان تمام کیسوں میں
سکیورٹی فورسز کی جانب سے گرفتار افراد اپنے
خاندان کو یا تو مردہ حالت میں لوٹائی گئیں یا پھر ان
کی الشیں شمال مغربی پاکستان کے دور دراز عالقے
میں پھینک دی گئیں۔ حکام ان اموات کی وجوہات کے
دسمبر: 2102/020/33 ASA 2102 ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست
3 Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 14:75:51 2102/21/01
4. ”ظلم کے ہاتھ“ 4
پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج
اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ
بعض خاص تحصیلوں (ضلعوں) یا دیہات میں تقریبا ہر ماہ آپ ایک الش
دیکھتے ہیں جس کے ساتھ ایک نوٹ ہوتا ہے جن میں جاسوسی کا الزام
عائد کیا گیا ہوتا ہے۔
خیبر ایجنسی میں فرنٹئر کنسٹیبلری کے ایک افسر
انصاف کی عدم موجودگی واضح کرتا ہے اذیت میں مبتال رہتے ہیں اور کسی احتساب کا بھی بارے میں جامع تحقیقات کرانے میں ناکام رہیں،
کہ یہ ریگولیشنز قانون کی حکمرانی کو کمزور کوئی امکان نہیں۔ رشتہ داروں کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا اور
کرتے ہیں۔ نہ ملوث افراد کے خالف قانونی کارروائی کا
ظاہری طور پر نئے ریگولیشنز کا مقصد مسلح اہتمام کیا۔
پاکستان کے پسماندہ ترین عالقوں میں سے ایک افواج کو قبائلی عالقوں میں طالبان اور دیگر
قبائلی عالقے پاکستان کے آئین کے تحت بھی مسلح گروہوں کے خالف قانون کے اندر رہتے گرفتار افراد جنہیں زندہ رہا کر دیا جاتا ہے ان کو
بنیادی حقوق کے تحفظ سے عاری ہیں۔ ایسی ہوئے کارروائی کریں۔ لیکن خالف ورزیوں کی دوران حراست سلوک کے بارے میں کھل کر بات
ضمانت کی عدم موجودگی میں حقوق انسانی کی تشویش ناک تعداد جس میں اموات اور تشدد اور کرنے کی صورت میں ان کے اہل خانہ سمیت جان
پامالیاں، اور ریاستی و غیرریاستی عناصر کی متاثرین یا جرم سرزد کرنے والوں کے لیے سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے جس سے وہ
خالف ورزیوں کی اگر معنی خیز طریقے سے
چھان بین نہیں کی جاتی اور اس میں ملوث افراد گلزار جان
کو قرار واقع سزا نہیں دی جاتی ہے جس سے اس
خطے میں حقوق انسانی کا بحران مزید سنگین جب ہم اُسے غسل دے رہے تھے تو میں نے نوٹ کیا الزام کی بنیاد پر پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا۔
صورت اختیار کر گیا ہے۔ کہ اس کی کمر پر کوڑوں کے نشانات تھے۔ پولیس ان کے اہل خانہ نے انہیں اس کے بعد دوبارہ زندہ
نے صرف اتنا کہا کہ وہ قید کے دوران بیمار ہوئے نہیں دیکھا۔ حکام کو اڑھائی برس تک مداخلت کی
حکومت پاکستان نے اگست 1102 میں اصالحات اور مر گئے۔” جہاں تک ایمنسٹی انٹرنیشنل آگاہ ہے، درخواستیں بےنتیجہ ثابت ہونے کے بعد سولہ اگست
کے ایک محدود پیکج کا اعالن کیا تھا جس میں حکام نے ورثاء کی درخواستوں کے باوجود گلزار کی دو ہزار بارہ کی صبح گاؤں کے ایک شخص نے
فرنٹئر کرائمز ریگولیشن میں معمولی بہتری موت کے بعد پوسٹ مارٹم یا تحقیقات نہیں کروائیں۔ گلزار کے والد کو بتایا کہ اس کی الش مقامی تھانے
متعارف کروائی گئی۔ یہ برطانیوی دور کا میں الئی گئی ہے۔ “جب میں نے اپنے بیٹے کو فوج
نوآبادیاتی نظام انصاف ہے جو آج بھی عالقے میں کے حوالے کیا تو اس وقت وہ صحت مند تھا، اس کا
رائج ہے۔ لیکن یہ اصالحات ضرورت سے بہت وزن پچاسی کلوگرام تھا،” ان کے والد نے ایمنٹسی
کم ہیں جو حقوق انسانی کے بین القوامی قوانین پر انٹرنیشنل کو بتایا۔ “جب ان کی الش حوالے کی گئی
عمل درآمد کو یقینی بنا سکتی ہیں اور ریگولیشنز تو وہ ایک تہائی بھی نہیں رہا تھا۔ تدفین سے قبل
اسے مزید متاثر کرتی ہیں۔
دسمبر: 2102/020/33 ASA 2102 ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست
4 Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 24:75:51 2102/21/01
6. 6
قانونی اور عملی مسائل کے باوجود رشتہ دار انصاف کی راہ میں روکاوٹیں
پاکستانی عدالتوں میں مقدمات الئے ہیں، جن میں پاکستانی سکیورٹی فورسز قبائلی عالقوں میں بغیر
پاکستانی آئین میں بنیادی حقوق کے ضمانت کے قانون کسی روک ٹوک کے سرگرم ہیں۔ ایسے میں انہیں
کی بنیاد پر مسلح افواج کی جانب سے غیرقانونی ایک ایسے قانونی فریم ورک کی مدد حاصل ہے
حراست کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس قانون کے باوجود جس میں آئین اور نئے ریگولیشنز ملکی ہائی کورٹس
عدالتوں نے ان مقدمات میں دائرے اختیار کا سہارا کو قبائلی عالقوں میں حقوق انسانی پر عمل درآمد
لیا ہے۔ کو یقینی بنانے سے روکتے ہیں۔ پاکستانی حکام اور “پشاور ہائی کورٹ میں تمام دائر
عدالتوں نے ابھی تک پاکستان فوج، سکیورٹی فورسز ہونے والی پٹیشنوں جن میں یہ
جون دو ہزار گیارہ میں پشاور ہائی کورٹ نے ایک اور خفیہ اداروں کے کسی رکن کو جبری گمشدگی، الزام ہوتا ہے کہ فالں کو ریاست
اہم فیصلے میں حکام سے ریگولیشنز کے تحت زیر تشدد یا کسی اور بدسلوکی یا قبائلی عالقوں میں دوران
حراست 0391 افراد کو فوری طور پر رہا کرنے یا حراست شخص کو غیرقانونی طور پر ہالک کرنے کے
نے اٹھایا ہے وزارت دفاع اور
انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ حکام نے مبینہ الزام کی تحقیقات یا اس کی بنیاد پر سزا نہیں دی داخلہ کو بھیجی جاتی ہیں جو بعد
بعد میں عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 5301 افراد ہے۔ ان میں وہ کیس بھی شامل ہیں جن کی نشان دہی میں دیگر وزارتوں اور سالمتی
کو بےقصور ہونے کی وجہ سے رہا کر دیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کی گئی تھی۔ کے اہلکاروں کو مطلع کرتے ہیں۔۔۔
0391 میں سے کم از کم 598 افراد “حراستی
مراکز” میں ہیں جہاں ان پر تشدد اور ان کی موت کا نئے ریگولیشنز میں کسی بھی زیرحراست شخص کو
اکثر وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ان
خطرہ ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ انہیں عدالتوں میں ان سے سلوک کے متعلق شکایت کرنے کی گنجائش کے پاس نہیں ہیں۔”
پیش کیا بھی جائے گا یا نہیں اور اگر کیا جائے گا موجود ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں
اقبال مہمند، ڈپٹی اٹارنی جنرل، خیبر پختونخوا
تو کب۔ کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی واقعے میں یہ نظام تشدد
اور بدسلوکی کو روکنے کے لیے موثر نہیں کیونکہ
جنہیں رہا کیا گیا ہے انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل یہ آذاد نہیں اور فوجی اہلکار عدالتی کارروائی سے
سے فوجی حکام کے خوف سے حراست کے دوران مستثنی ہیں۔ اس کے عالوہ یہ ریگلولیشز زیر حراست
سلوک کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا ہے۔ افراد کو ان کے حقوق سے محروم بھی کرتے ہیں
ان مردوں اور لڑکوں کے وکالء کا کہنا ہے کہ انہیں کیونکہ یہ انہیں ان کے خاندان اور وکیل تک رسائی
رہا کر دیا گیا ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی کی ضمانت نہیں دیتے ہیں۔
دسمبر: 2102/020/33 ASA 2102 ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست
6 Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd 44:75:51 2102/21/01