SlideShare ist ein Scribd-Unternehmen logo
1 von 8
Downloaden Sie, um offline zu lesen
‫“ظلم کے‬
                                                 ‫ہاتھ”‬
                                                 ‫	‬
                                     ‫پاکستان کے قبائلی عالقوں‬
                                     ‫میں مسلح افواج اور طالبان‬
                                          ‫کی زیادتیاں - خالصہ‬




‫1 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬                           ‫04:75:51 2102/21/01‬
‫© اے پی فوٹو/ محمد سجاد‬                         ‫“ظلم کے ہاتھ کی پہنچ تو قبائلی عالقوں تک ہوسکتی ہے‬
                                                                                                            ‫لیکن انصاف کے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔”‬
                                                                                                                                                         ‫غالم نبی، وکیل پشاور ہائی کورٹ‬




             ‫حراست ہالکتوں کے الزامات عائد کیے جاتے رہے‬                           ‫نیاز کی رہائی کے چند گھنٹوں کے اندر اس کے کزن‬            ‫“پہلے پانچ دن انہوں نے ہمیں چمڑے کی بیلٹ سے‬
                  ‫ہیں۔ طالبان بالامتیاز حملے اور مغوی سپاہیوں‬                    ‫بالل نے اسے بتایا کہ ایوب کو ایک مقامی ہسپتال منتقل‬           ‫کمر پر مسلسل پیٹا، درد اتنا تھا کہ بیان نہیں کیا‬
               ‫اور جاسوسی کے الزام میں پکڑے ہوئے افراد کا‬                           ‫کر دیا گیا ہے۔ نیاز وضاحت کرتے ہیں: “میں سمجھا‬         ‫جاسکتا ہے،” خوفزدہ نیاز کا فوج کے ہاتھوں تفتیش‬
           ‫غیرقانونی قتل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قبائلی عالقوں‬                        ‫کہ انہیں رہا کر دیا گیا ہے جوکہ خوشی کی بات ہے۔”‬      ‫کے بارے میں کہنا تھا۔ نیاز اور ان کے بھائی ایوب ان‬
           ‫میں حکومتی رٹ کی عدم موجودگی میں امریکہ بغیر‬                              ‫لیکن دوپہر بالل کا فون ایک بری خبر کے ساتھ آیا۔‬    ‫ہزاروں مردوں اور لڑکوں میں شامل ہیں جنہیں طالبان‬
          ‫پائلٹ “ڈرون” طیاروں کے ذریعے “نشانہ بنا کر ہالک”‬                               ‫“اس نے کہا کہ اس کے پاس ایوب کی الش ہے۔”‬          ‫کے سابق زیر کنٹرول عالقوں میں کارروائیوں کے‬
             ‫کرنے کا ایک پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے جو‬                              ‫بالل کے مطابق اسے ایک فوجی افسر نے بتایا کہ وہ‬                              ‫دوران مسلح افواج نے پکڑا تھا۔‬
           ‫حقوق انسانی کی خالف ورزیوں کی وجہ سے تشویش‬                             ‫سیدو ٹیچنگ ہسپتال آجائے اور جب وہ وہاں پہنچا اور‬
          ‫کا باعث بن رہا ہے خصوصا کیونکہ یہ پروگرام شفاف‬                          ‫اس نے ایوب کی الش دیکھی تو اسے فوجی افسر نے‬            ‫“پانچ فوجی ہمیشہ ہر تفتیشی سیشن کے دوران موجود‬
                                                    ‫نہیں ہے۔‬                        ‫بتایا کہ وہ فوجی حراست میں “حرکت قلب” بند ہونے‬         ‫رہتے۔ تمام فوجی یونیفارم میں ملبوث ہوتے لیکن ان‬
                                                                                                          ‫کی وجہ سے فوت ہوگیا ہے۔‬        ‫میں سے ایک فوج کی پنجاب ریجمنٹ کے یونٹ ایف‬
            ‫قبائلی عالقوں میں قانون کی حکمرانی میں بہتری کے‬                                                                                    ‫ایف 6 سے صوبیدار (نان کمیشنڈ افسر) بولتا تھا۔‬
          ‫لیے بجائے اس کے کہ پاکستان کے کرمنل جسٹس نظام‬                          ‫جہاں تک ایمنسٹی انٹرنیشنل کو معلوم ہے، پاکستان فوج‬          ‫وہ مجھے طالبان کا حصہ ہونے کا اقرار نہ کرنے‬
             ‫میں حقوق انسانی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے‬                           ‫نے نیاز اور ایوب پر مبینہ تشدد یا ایوب کی دوران‬         ‫پر مار دینے کی دھمکی دیتا تھا۔ میں انہیں بتاتا تھا‬
             ‫کوشش کی جاتی، حکام نے نیا سالمتی قانون ایکشنز‬                         ‫فوجی حراست ہالکت کی کوئی تحقیقات نہیں کروائی‬            ‫کہ میرا ایک چچازاد شدت پسند تھا لیکن نہ میں اور‬
            ‫(ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشن 1102 (اے اے سی‬                                                                         ‫ہیں۔‬     ‫نہ ایوب طالبان کا حصہ تھے۔ ہم محض کسان ہیں۔ یہ‬
             ‫پی آر) متعارف کرایا ہے۔ یہ قانون سکیورٹی فورسز‬                                                                              ‫تردید سن کر صوبیدار چیخ پڑتا، تمھارا بھائی آج رات‬
              ‫کو طویل، بالامتیاز اور انسدادی حراست کی اجازت‬                        ‫ایک دہائی کے تشدد، کشیدگی اور مسلح تصادم کے‬                ‫مر جائے گا! اگر تم اسے آخری مرتبہ نہیں دیکھنا‬
            ‫دیتا ہے جوکہ حقوق انسانی کے بین القوامی معیار کی‬                          ‫بعد، پاکستان کو افغان سرحد پر واقع شمال مغربی‬                                         ‫چاہتے تو سچ بول دو۔”‬
                                            ‫خالف ورزی ہے۔‬                        ‫خطے میں حقوق انسانی کے جاری بحران کا سامنا ہے‬
                                                                                 ‫جہاں ریاستی اور غیرریاستی عناصر بغیر کسی روک‬                  ‫اپریل دو ہزار دس کی ایک صبح، بھائی کے ساتھ‬
              ‫ہائی کورٹس کے دائرے اختیار کو خصوصا حقوق‬                                             ‫ٹوک کے کارروائیاں کر رہے ہیں۔‬             ‫گرفتاری کے دس روز بعد نیاز کو وادی سوات میں‬
          ‫انسانی کی پامالیوں کے مقدمات میں نہ بڑھانے سے یہ‬                                                                              ‫ایک فوجی اڈے کے حراستی مرکز سے رہا کر دیا گیا۔‬
          ‫ریگولیشنز اس عالقے میں گرفت سے آذادی کے کلچر‬                                ‫پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حراستوں، جبری‬            ‫“یہ اتنا جلد ہوا کہ مجھے ایوب کو خدا حافظ کہنے کا‬
             ‫کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس خطے‬                                  ‫گمشدگیوں، تشدد اور دیگر بدسلوکیوں اور دوران‬                                       ‫موقع بھی نہیں مال۔”‬




                                                                                                            ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬               ‫2102 	‬   ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬

‫2 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬                                                                                                                                                      ‫14:75:51 2102/21/01‬
‫3‬                                  ‫”ظلم کے ہاتھ“‬
           ‫پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج‬
                    ‫اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ‬




                 ‫پاکستانی فوجی جنوبی وزیرستان کے قبائلی عالقے‬                    ‫فوجی حراست میں ہالکت‬                       ‫میں رونما ہونے والی دوران حراست ہالکتوں، جبری‬
          ‫کھجوری کٹ کی چوٹی پر پوزیشن سنبھالتے ہوئے۔ جوالئی‬         ‫فروری دو ہزار گیارہ میں شام کی نماز سے کچھ دیر‬          ‫گمشدگیوں، تشدد اور دیگر بدسلوکیوں کے مقدمات کا‬
             ‫دو ہزار گیارہ۔ ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشن‬    ‫قبل جہانزیب کو، جو خیبر پختونخوا کے صوابی میں‬                             ‫بامعنی احتساب نہیں ہوسکا ہے۔‬
               ‫1102 پاکستان کی مسلح افواج کو شورش زدہ قبائلی‬        ‫پولٹری فارمنگ کرتا تھا، گھر پر فوجیوں نے گرفتار‬
             ‫عالقوں میں وسیع اختیارات دیتا ہے۔ ہزاروں بغیر کوئی‬      ‫کر لیا۔ یہ آخری مرتبہ تھی جب گھر والوں نے انہیں‬      ‫درج ذیل ایمنٹسی انٹرنیشنل کی رپورٹ “ظلم کے ہاتھ”:‬
             ‫وجہ بتائے حراست میں لیے گئے ہیں۔ ان افراد پر تشدد‬          ‫زندہ دیکھا۔ ایک سال بعد ستائیس جون 2102 کو‬         ‫پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج اور طالبان‬
                ‫اور دیگر بدسلوکیوں کا بلکہ دوران حراست ہالکت کا‬     ‫جہانزیب کی الش ضلع ہری پور میں ملی جو ان کے‬           ‫کی زیادتیاں کا خالصہ ہے۔ (2102/910/33 ‪.)ASA‬‬
                                                      ‫خطرہ ہے۔‬       ‫گھر سے اسی کلومیٹر کی دوری پر ہے، جہاں سے‬
                                                                                              ‫انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔‬      ‫تمام متاثرین اور ان کے رشتہ داروں کے نام ان کی‬
                                                                                                                           ‫شناخت کے تحفظ کے مدنظر تبدیل کر دئے گئے ہیں۔‬
                                                                   ‫آج تک اس موت میں مسلح افواج کے مبینہ کردار کے‬
                                                                    ‫بارے میں کوئی تفتیش نہیں ہوئی ہے۔ تاہم کئی شاہدین‬
                                                                      ‫نے آخری مرتبہ انہیں فوجی حراست میں دیکھا اور‬
                                                                        ‫پشاور ہائی کورٹ میں جہانزیب اور دوسروں کی‬
                                                                       ‫غیرقانونی حراست سے متعلق پٹیشن میں بیان جمع‬
                                                                   ‫کرایا ہے۔ اس مقدمے میں تحقیقات نہ ہونا یہ ثابت کرتا‬
                                                                      ‫ہے کہ کیسے سکیورٹی فورسز ان عالقوں میں بغیر‬
                                                                                             ‫کسی پابندی کے سرگرم ہیں۔‬


                                                                   ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل نے ایوب اور جہانزیب جیسے کئی‬
                                                                   ‫واقعات کی تفصیالت جمع کی ہیں۔ ان تمام کیسوں میں‬
                                                                      ‫سکیورٹی فورسز کی جانب سے گرفتار افراد اپنے‬
                                                                    ‫خاندان کو یا تو مردہ حالت میں لوٹائی گئیں یا پھر ان‬
                                                                   ‫کی الشیں شمال مغربی پاکستان کے دور دراز عالقے‬
                                                                   ‫میں پھینک دی گئیں۔ حکام ان اموات کی وجوہات کے‬




           ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬                ‫2102 	‬   ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬

‫3 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬                                                                                                                                    ‫14:75:51 2102/21/01‬
‫”ظلم کے ہاتھ“‬           ‫4‬
                                                                                                                         ‫پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج‬
                                                                                                                                  ‫اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ‬




                                                              ‫بعض خاص تحصیلوں (ضلعوں) یا دیہات میں تقریبا ہر ماہ آپ ایک الش‬
                                                             ‫دیکھتے ہیں جس کے ساتھ ایک نوٹ ہوتا ہے جن میں جاسوسی کا الزام‬
                                                                                                             ‫عائد کیا گیا ہوتا ہے۔‬
                                                                                                                ‫خیبر ایجنسی میں فرنٹئر کنسٹیبلری کے ایک افسر‬




                  ‫انصاف کی عدم موجودگی واضح کرتا ہے‬          ‫اذیت میں مبتال رہتے ہیں اور کسی احتساب کا بھی‬         ‫بارے میں جامع تحقیقات کرانے میں ناکام رہیں،‬
              ‫کہ یہ ریگولیشنز قانون کی حکمرانی کو کمزور‬                                  ‫کوئی امکان نہیں۔‬           ‫رشتہ داروں کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا اور‬
                                              ‫کرتے ہیں۔‬                                                               ‫نہ ملوث افراد کے خالف قانونی کارروائی کا‬
                                                                 ‫ظاہری طور پر نئے ریگولیشنز کا مقصد مسلح‬                                              ‫اہتمام کیا۔‬
             ‫پاکستان کے پسماندہ ترین عالقوں میں سے ایک‬             ‫افواج کو قبائلی عالقوں میں طالبان اور دیگر‬
               ‫قبائلی عالقے پاکستان کے آئین کے تحت بھی‬           ‫مسلح گروہوں کے خالف قانون کے اندر رہتے‬          ‫گرفتار افراد جنہیں زندہ رہا کر دیا جاتا ہے ان کو‬
                ‫بنیادی حقوق کے تحفظ سے عاری ہیں۔ ایسی‬           ‫ہوئے کارروائی کریں۔ لیکن خالف ورزیوں کی‬           ‫دوران حراست سلوک کے بارے میں کھل کر بات‬
            ‫ضمانت کی عدم موجودگی میں حقوق انسانی کی‬             ‫تشویش ناک تعداد جس میں اموات اور تشدد اور‬        ‫کرنے کی صورت میں ان کے اہل خانہ سمیت جان‬
              ‫پامالیاں، اور ریاستی و غیرریاستی عناصر کی‬             ‫متاثرین یا جرم سرزد کرنے والوں کے لیے‬         ‫سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے جس سے وہ‬
              ‫خالف ورزیوں کی اگر معنی خیز طریقے سے‬
            ‫چھان بین نہیں کی جاتی اور اس میں ملوث افراد‬                                                                                              ‫گلزار جان‬
           ‫کو قرار واقع سزا نہیں دی جاتی ہے جس سے اس‬
              ‫خطے میں حقوق انسانی کا بحران مزید سنگین‬        ‫جب ہم اُسے غسل دے رہے تھے تو میں نے نوٹ کیا‬        ‫الزام کی بنیاد پر پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا۔‬
                                ‫صورت اختیار کر گیا ہے۔‬       ‫کہ اس کی کمر پر کوڑوں کے نشانات تھے۔ پولیس‬         ‫ان کے اہل خانہ نے انہیں اس کے بعد دوبارہ زندہ‬
                                                             ‫نے صرف اتنا کہا کہ وہ قید کے دوران بیمار ہوئے‬      ‫نہیں دیکھا۔ حکام کو اڑھائی برس تک مداخلت کی‬
            ‫حکومت پاکستان نے اگست 1102 میں اصالحات‬           ‫اور مر گئے۔” جہاں تک ایمنسٹی انٹرنیشنل آگاہ ہے،‬    ‫درخواستیں بےنتیجہ ثابت ہونے کے بعد سولہ اگست‬
              ‫کے ایک محدود پیکج کا اعالن کیا تھا جس میں‬      ‫حکام نے ورثاء کی درخواستوں کے باوجود گلزار کی‬      ‫دو ہزار بارہ کی صبح گاؤں کے ایک شخص نے‬
                 ‫فرنٹئر کرائمز ریگولیشن میں معمولی بہتری‬      ‫موت کے بعد پوسٹ مارٹم یا تحقیقات نہیں کروائیں۔‬    ‫گلزار کے والد کو بتایا کہ اس کی الش مقامی تھانے‬
                   ‫متعارف کروائی گئی۔ یہ برطانیوی دور کا‬                                                        ‫میں الئی گئی ہے۔ “جب میں نے اپنے بیٹے کو فوج‬
           ‫نوآبادیاتی نظام انصاف ہے جو آج بھی عالقے میں‬                                                         ‫کے حوالے کیا تو اس وقت وہ صحت مند تھا، اس کا‬
              ‫رائج ہے۔ لیکن یہ اصالحات ضرورت سے بہت‬                                                             ‫وزن پچاسی کلوگرام تھا،” ان کے والد نے ایمنٹسی‬
           ‫کم ہیں جو حقوق انسانی کے بین القوامی قوانین پر‬                                                       ‫انٹرنیشنل کو بتایا۔ “جب ان کی الش حوالے کی گئی‬
            ‫عمل درآمد کو یقینی بنا سکتی ہیں اور ریگولیشنز‬                                                       ‫تو وہ ایک تہائی بھی نہیں رہا تھا۔ تدفین سے قبل‬
                                  ‫اسے مزید متاثر کرتی ہیں۔‬




                                                                                      ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬            ‫2102 	‬   ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬

‫4 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬                                                                                                                        ‫24:75:51 2102/21/01‬
‫5‬                                  ‫”ظلم کے ہاتھ“‬




                                                                    ‫© رائٹرز/عمر میڈیا/ہینڈ آوٹ‬
            ‫پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج‬
                     ‫اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ‬




                          ‫طالبان جنگجو پاکستانی سپاہیوں کو جنہیں‬                                    ‫آتے ہیں۔ طالبان کی نیم عدالتی کارروائی بین‬                             ‫طالبان زیادتیاں‬
                        ‫ٹانک سے چار جنوری دو ہزار بارہ میں اغوا‬                                   ‫القوامی حقوق انسانی کے معیار اور قوانین کے‬              ‫طالبان وسیع پیمانے پر حقوق انسانی کی‬
                                      ‫کیا گیا تھا ہالک کرتے ہوئے۔‬                                 ‫تحت منصفانہ سماعت کے بنیادی معیار کو بھی‬                ‫خالف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‬
                                                                                                                              ‫پورا نہیں کرتے۔‬              ‫وہ پکڑے جانے والے سپاہیوں اور مبینہ‬
                                                                                                                                                         ‫جاسوسوں کے غیرقانونی قتل اور پاکستان‬
                                                                                                                                                        ‫بھر میں بالامتیاز حملے میں ملوث ہیں جن‬
                                                                                                                                          ‫نذر‬            ‫میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہالک اور‬
                                                                                                                                                            ‫زخمی ہوئے ہیں۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ‬
          ‫اس صبح بعد میں نذر کے بھائی امجد نے الش حاصل کی۔‬          ‫پندرہ مئی دو ہزار گیارہ کی صبح قبائلی عالقے‬                                     ‫خودکش حملے اور بم دھماکے خودساختہ بموں‬
          ‫امجد کا کہنا تھا: “اس کا جسم تازہ تھا جیسے اسے‬            ‫شمالی وزیرستان کے نذر کو پاکستان فوج کے لیے‬                                       ‫(آئی ای ڈیز) کی مدد سے مارکیٹوں، مساجد،‬
          ‫چند گھنٹوں قبل ہی ہالک کیا گیا ہو۔۔۔ لیکن الش انتہائی‬     ‫جاسوسی کے الزام میں طالبان نے غیرقانونی طور پر‬                                     ‫سکولوں اور دیگر پرہجوم مقامات پر کرتے‬
          ‫مسخ شدہ تھی۔ اسے بظاہر اس کی بائیں کن پٹی پر‬              ‫قتل کر دیا۔ طالبان کے ایک جالد قاری ظفر کے جنہوں‬                                ‫ہیں جو جان بوجھ کر یا پھر غیرارادی طور پر‬
          ‫گولی ماری گئی تھی۔ اس کا گلہ جزوی کاٹا گیا تھا۔ اس‬        ‫نے یہ قتل دیکھا مطابق نذر کی الش کی طالبان نے‬                                              ‫شہریوں کی ہالکت کا سبب بنتے ہیں۔‬
          ‫کے جسم پر جگہ جگہ خنجر سے کاٹنے کے نشانات‬                                                                              ‫بےحرمتی کی۔‬
          ‫تھے۔ دو کٹ کے نشان اس کے ہاتھوں، ٹخنوں، کمر‬                                                                                                ‫جن عالقوں میں ان کی گرفت ہے وہاں طالبان‬
            ‫اور ٹانگوں پر اور نو کٹ کے نشان گردن پر تھے۔”‬           ‫قاری ظفر نے وضاحت کرتے کہا: “میں نے‬                                             ‫لوگوں کو غیرقانونی طور پر قتل کر رہے ہیں۔‬
                                                                    ‫نذر کو دیگر دو (طالبان) جنگجوؤں کی مدد سے‬                                         ‫وہ بعض اوقات نیم عدالتی کارروائی اور باقی‬
          ‫امجد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے سینے پر پشتو میں‬         ‫پکڑا۔ ان کی کالیاں ان کی پشت پر بندھی ہوئی تھیں۔‬                                  ‫مواقعوں پر کسی کارروائی کے بغیر ایسا کر‬
          ‫ایک نوٹ چسپاں تھا جس میں لکھا تھا: “وہ سب جو‬              ‫ایک جنگجو نے اسے اس کے سر کی بائیں جانب‬                                      ‫رہے ہیں۔ بعض مواقعوں پر طالبان نے غیرقانونی‬
          ‫جاسوسی کر رہے ہیں ان کا یہی حشر ہوگا۔” ان کا مزید‬         ‫سے گولی ماری اور وہ موقع پر ہی ہالک ہوگیا۔‬                                     ‫طور پر لوگوں کو جاسوسی کا الزام عائد کرکے‬
          ‫کہنا تھا کہ طالبان کے خوف اور ان کے ہاتھوں قتل‬            ‫جنگجوؤں نے بعد میں اس کی الش کے ٹکڑے کئے‬                                     ‫یا فوجیوں کو پکڑ کر ہالک کیا۔ یہ قتل بین القوامی‬
          ‫ہونے والوں کی بدنامی کی کیفیت یہ ہے کہ نذر کا جنازہ‬       ‫ان لوگوں کے لیے عبرت کے طور پر جو جاسوسی‬                                        ‫انسانی قوانین کی خالف ورزی اور زندہ رہنے‬
                        ‫کسی نے بھی پڑھنے سے انکار کر دیا۔‬                                                                          ‫کریں گے۔”‬        ‫جیسے حقوق انسانی کی پامالی کے زمرے میں‬




            ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬                 ‫2102 	‬   ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬

‫5 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬                                                                                                                                                        ‫24:75:51 2102/21/01‬
‫6‬




                  ‫قانونی اور عملی مسائل کے باوجود رشتہ دار‬                ‫انصاف کی راہ میں روکاوٹیں‬
               ‫پاکستانی عدالتوں میں مقدمات الئے ہیں، جن میں‬         ‫پاکستانی سکیورٹی فورسز قبائلی عالقوں میں بغیر‬
          ‫پاکستانی آئین میں بنیادی حقوق کے ضمانت کے قانون‬            ‫کسی روک ٹوک کے سرگرم ہیں۔ ایسے میں انہیں‬
               ‫کی بنیاد پر مسلح افواج کی جانب سے غیرقانونی‬            ‫ایک ایسے قانونی فریم ورک کی مدد حاصل ہے‬
            ‫حراست کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس قانون کے باوجود‬        ‫جس میں آئین اور نئے ریگولیشنز ملکی ہائی کورٹس‬
             ‫عدالتوں نے ان مقدمات میں دائرے اختیار کا سہارا‬          ‫کو قبائلی عالقوں میں حقوق انسانی پر عمل درآمد‬
                                                    ‫لیا ہے۔‬        ‫کو یقینی بنانے سے روکتے ہیں۔ پاکستانی حکام اور‬           ‫“پشاور ہائی کورٹ میں تمام دائر‬
                                                                  ‫عدالتوں نے ابھی تک پاکستان فوج، سکیورٹی فورسز‬               ‫ہونے والی پٹیشنوں جن میں یہ‬
             ‫جون دو ہزار گیارہ میں پشاور ہائی کورٹ نے ایک‬           ‫اور خفیہ اداروں کے کسی رکن کو جبری گمشدگی،‬               ‫الزام ہوتا ہے کہ فالں کو ریاست‬
             ‫اہم فیصلے میں حکام سے ریگولیشنز کے تحت زیر‬           ‫تشدد یا کسی اور بدسلوکی یا قبائلی عالقوں میں دوران‬
            ‫حراست 0391 افراد کو فوری طور پر رہا کرنے یا‬          ‫حراست شخص کو غیرقانونی طور پر ہالک کرنے کے‬
                                                                                                                               ‫نے اٹھایا ہے وزارت دفاع اور‬
                ‫انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ حکام نے‬      ‫مبینہ الزام کی تحقیقات یا اس کی بنیاد پر سزا نہیں دی‬      ‫داخلہ کو بھیجی جاتی ہیں جو بعد‬
                ‫بعد میں عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 5301 افراد‬      ‫ہے۔ ان میں وہ کیس بھی شامل ہیں جن کی نشان دہی‬              ‫میں دیگر وزارتوں اور سالمتی‬
                 ‫کو بےقصور ہونے کی وجہ سے رہا کر دیا ہے۔‬                ‫ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کی گئی تھی۔‬       ‫کے اہلکاروں کو مطلع کرتے ہیں۔۔۔‬
                   ‫0391 میں سے کم از کم 598 افراد “حراستی‬
           ‫مراکز” میں ہیں جہاں ان پر تشدد اور ان کی موت کا‬        ‫نئے ریگولیشنز میں کسی بھی زیرحراست شخص کو‬
                                                                                                                             ‫اکثر وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ان‬
             ‫خطرہ ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ انہیں عدالتوں میں‬        ‫ان سے سلوک کے متعلق شکایت کرنے کی گنجائش‬                              ‫کے پاس نہیں ہیں۔”‬
               ‫پیش کیا بھی جائے گا یا نہیں اور اگر کیا جائے گا‬   ‫موجود ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں‬
                                                                                                                           ‫اقبال مہمند، ڈپٹی اٹارنی جنرل، خیبر پختونخوا‬
                                                        ‫تو کب۔‬        ‫کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی واقعے میں یہ نظام تشدد‬
                                                                   ‫اور بدسلوکی کو روکنے کے لیے موثر نہیں کیونکہ‬
              ‫جنہیں رہا کیا گیا ہے انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل‬       ‫یہ آذاد نہیں اور فوجی اہلکار عدالتی کارروائی سے‬
            ‫سے فوجی حکام کے خوف سے حراست کے دوران‬                ‫مستثنی ہیں۔ اس کے عالوہ یہ ریگلولیشز زیر حراست‬
            ‫سلوک کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا ہے۔‬               ‫افراد کو ان کے حقوق سے محروم بھی کرتے ہیں‬
           ‫ان مردوں اور لڑکوں کے وکالء کا کہنا ہے کہ انہیں‬         ‫کیونکہ یہ انہیں ان کے خاندان اور وکیل تک رسائی‬
           ‫رہا کر دیا گیا ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی‬                              ‫کی ضمانت نہیں دیتے ہیں۔‬




                                                                                             ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬             ‫2102 	‬   ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬

‫6 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬                                                                                                                               ‫44:75:51 2102/21/01‬
‫7‬




                                                                        ‫© ایمنٹسی انٹرنیشنل‬
                                                                                                ‫انتہائی دائیں: فوجی کی جانب سے شمال مغربی پاکستان‬
                                                                                                 ‫میں حراست میں لیے جانے والے مردوں اور لڑکوں کے‬
                                                                                               ‫رشتہ دار پشاور ہائی کورٹ میں اپنے پیاروں کے اتے پتے‬
                                                                                                                     ‫کی امید میں منتظر, اگست 2102.‬
                                                                                              ‫بائیں: ہر ماہ بےچین فضل خالق پشاور ہائی کورٹ کے میں‬
                                                                                              ‫سماعت کی تفصیل ٹٹولتا ہے اس امید میں کہ سرکاری وکیل‬
                                                                                                 ‫اس کے بھائی فدا حسین سے متعلق کوئی معلومات پیش‬
                                                                                                 ‫کریں گے۔ اکتوبر دو ہزار بارہ فضل اور حسین دونوں کو‬
                                                                                               ‫پاکستانی سکیورٹی فورسز نے شمالی مغربی ضلع نوشہرہ‬
                                                                                               ‫میں خیر آباد کے بازار سے گرفتار اور زیر حراست میں لیا‬
                                                                                              ‫تئیس مارچ دو ہزار بارہ کو۔ فضل کو اسی شب رہا کر دیا گیا‬
                                                                                                                          ‫لیکن حسین آج تک الپتہ ہے۔‬




                                                                                                  ‫اور ہیں جنہیں حراست میں بغیر کسی عدالت میں‬
                                                                                                 ‫پیشی کے رکھا جا رہا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ بھی‬
                                                                                              ‫اس سے بظاہر آگاہ ہے کہ کئی ابھی میں حراست میں‬
                                                                                               ‫ہیں: نومبر 2102 میں اس نے حکام کو حکم دیا کہ‬
                                                                                               ‫وہ اس کے سامنے زیر حراست افراد کی مکمل اور‬
                                                                                                 ‫حتمی فہرست پیش کرے۔ یہ فہرست ابھی تک پیش‬
                                                                                                                              ‫نہیں کی گئی ہے۔‬




          ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬     ‫2102 	‬   ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬

‫7 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬                                                                                                           ‫44:75:51 2102/21/01‬
‫دائیں : پشاور ہائی کورٹ میں ایک عورت اپنے الپتہ بیٹے کی‬




                                                                         ‫© ایمنٹسی انٹرنیشنل‬
          ‫تصویر ہوئے ہے۔ اگست دو ہزار بارہ۔ وہ وہاں منتظر ہوتی ہے‬
           ‫بیٹے سے متعلق کسی خبر کی۔ ان کے بیٹے کو مبینہ طور پر‬
                                ‫پاکستانی سکیورٹی فورسز نے اٹھایا تھا۔‬
             ‫فرنٹ کور: ایک سپاہی پاکستان کے شمال مغربی عالقے‬
             ‫خیبر ایجنسی میں میڈیا کے سامنے چہرے چھپائے ہوئے‬
            ‫افراد کی نگرانی کر رہا ہے۔ دسمبر 2102۔ فوج کا کہنا ہے‬
          ‫کہ یہ لوگ شدت پسند ہیں جنہیں قبائلی عالقوں میں کارروائی‬
                                       ‫کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔‬
                                                   ‫© رائٹرز/کے۔پرویز‬




                                                     ‫سفارشات‬
               ‫ایمنسٹی انٹرنیشنل حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی‬
                                                          ‫ہے کہ وہ:‬


             ‫‪ ‬وفاق اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی عالقوں‬
              ‫میں نافذ ایکشن (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشنز‬
                                     ‫1102 منسوخ کیا جائے۔‬


             ‫‪ ‬فرنٹئر کرائمز ریگولیشن 1091 کو منسوخ کیا‬
               ‫جائے یا اس میں ترامیم کریں تاکہ اسے پاکستان‬
            ‫کی حقوق انسانی سے متعلق عالمی ذمہ داریوں کے‬
                                        ‫مطابق بنایا جاسکے۔‬


             ‫‪ ‬پاکستان کی ہائی کورٹس اور پارلیمان کے دائرہ‬
               ‫اختیار کو پارلیمان کے ایکٹ کے تحت وفاق کے‬
             ‫زیر انتظام قبائلی عالقوں تک بلترتیب پارلیمان کے‬
                 ‫ایکٹ اور صدر کے ایگزیکٹو حکم سے بڑھایا‬
                                                      ‫جائے۔‬


              ‫‪ ‬قبائلی عالقوں میں انتظامی حراستوں کے نظام‬
                                         ‫کو ختم کیا جائے۔‬


              ‫‪ ‬دوران حراست ہالکت اور تشدد اور بدسلوکی،‬
             ‫جبری گمشدگیوں کی فوری، آذادنہ، غیرجانبدارانہ‬
             ‫جامع تحقیقات کروائی جائیں اور اس بات کو یقینی‬
                ‫بنائیں کہ ان تحقیقات کا عوامی جانچ پڑتال بھی‬             ‫پامالیوں کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ حکومت پاکستان‬                                                 ‫نتیجہ‬
                                                  ‫ممکن ہو۔‬                  ‫کی جانب سے قبائلی عالقوں میں حقوق انسانی کو‬         ‫ایمنسٹی انٹرنیشنل اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ‬
                                                                          ‫یقینی بنانے کے لیے اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے‬         ‫پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سرحد پر شورش‬
                  ‫‪ ‬قبائلی عالقوں میں حقوق انسانی میں ملوث‬               ‫تو اس خطے کے الکھوں لوگ القانونیت کی دلدل میں‬     ‫جیسے ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ حکومت کو‬
               ‫تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں الیا جائے۔‬                                                ‫پھنسے رہیں گے۔‬    ‫ان عالقوں میں سول اختیار بحال کرنا تھا۔ اسے یہاں‬
                 ‫ان میں مسلح افواج کے ملزم قرار دیے جانے‬                                                                       ‫اس لڑائی اور تین برسوں کے مسلسل سیالب سے‬
                ‫والوں اور طالبان بھی شامل ہوں۔ ان کے خالف‬                                                                     ‫تباہ حال انفراسٹرکچر کو بحال کرنا تھا۔ البتہ مسلح‬
                 ‫منصفانہ مقدمہ چلے جس میں سزاِے موت کی‬                                                                        ‫افواج کی جانب سے خالف ورزیوں کو ریگولیشنز‬
                                             ‫گنجائش نہ ہو۔‬                                                                      ‫کے تحت قانونی تحفظ دینا اور قانون کے ہاتھوں‬
                                                                                                                                 ‫کو قبائلی عالقوں تک نہ بڑھانے سے حکام نے‬
                                                                                                                               ‫سکیورٹی فورسز اور طالبان کو حقوق انسانی کی‬

                 ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬        ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل ایک عالمی تحریک ہے۔ اس کے ڈیڑھ سو سے زائد ممالک‬
                                   ‫‪Urdu‬‬         ‫اور خطوں میں تیس الکھ حامی، اراکین اور سرگرم کارکن حقوق انسانی کی‬
                            ‫2102‬   ‫فهرست‬                          ‫شدید خالف ورزیوں کے خاتمے کے لیے متحرک ہیں۔‬
                     ‫‪Amnesty International‬‬
                  ‫‪International Secretariat‬‬     ‫ہماری کوشش ہے کہ ہر شخص کو وہ تمام حقوق میسر ہوں جن کا ذکر حقوق‬
                     ‫‪Peter Benenson House‬‬
                            ‫1 ‪Easton Street‬‬      ‫انسانی کے عالی اعالمیے اور انسانی حقوق کے بین القوامی معیار میں ہے۔‬
                        ‫‪London WC1X 0DW‬‬
                           ‫‪United Kingdom‬‬
                                               ‫ہم کسی بھی حکومت، سیاسی نظریے، اقتصادی مفاد یا مذہب سے آذاد ہیں اور‬
                     ‫‪amnesty.org‬‬                   ‫ہمارے اخراجات ممبرشپ اور عوامی عطیات سے پورے کئے جاتے ہیں۔‬




‫8 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬                                                                                                                                      ‫64:75:51 2102/21/01‬

Weitere ähnliche Inhalte

Mehr von fatanews

Peshawar High Court FATA Judgment Analysis (2014)
Peshawar High Court FATA Judgment Analysis (2014)Peshawar High Court FATA Judgment Analysis (2014)
Peshawar High Court FATA Judgment Analysis (2014)
fatanews
 
Analysis of 2013 FATA General Election Results (FAFEN report, January 2014)
Analysis of 2013 FATA General Election Results (FAFEN report, January 2014)Analysis of 2013 FATA General Election Results (FAFEN report, January 2014)
Analysis of 2013 FATA General Election Results (FAFEN report, January 2014)
fatanews
 
Peshawar High Court Judgment on FATA Jurisdiction (April 2014)
Peshawar High Court Judgment on FATA Jurisdiction (April 2014)Peshawar High Court Judgment on FATA Jurisdiction (April 2014)
Peshawar High Court Judgment on FATA Jurisdiction (April 2014)
fatanews
 
Social and Psychological Consequences of Violence in FATA (September 2013)
Social and Psychological Consequences of Violence in  FATA (September 2013)Social and Psychological Consequences of Violence in  FATA (September 2013)
Social and Psychological Consequences of Violence in FATA (September 2013)
fatanews
 
Impediments to Integrating FATA in Pakistan Mainstream (2009, Muhammad Tayyab...
Impediments to Integrating FATA in Pakistan Mainstream (2009, Muhammad Tayyab...Impediments to Integrating FATA in Pakistan Mainstream (2009, Muhammad Tayyab...
Impediments to Integrating FATA in Pakistan Mainstream (2009, Muhammad Tayyab...
fatanews
 
All Bajaur Political Parties Alliance agenda and FATA reforms recommendations...
All Bajaur Political Parties Alliance agenda and FATA reforms recommendations...All Bajaur Political Parties Alliance agenda and FATA reforms recommendations...
All Bajaur Political Parties Alliance agenda and FATA reforms recommendations...
fatanews
 
Voices from FATA #44 (June 2013)
Voices from FATA #44 (June 2013)Voices from FATA #44 (June 2013)
Voices from FATA #44 (June 2013)
fatanews
 
Voices from FATA #43 (June 2013)
Voices from FATA #43 (June 2013)Voices from FATA #43 (June 2013)
Voices from FATA #43 (June 2013)
fatanews
 

Mehr von fatanews (20)

Peshawar High Court FATA Judgment Analysis (2014)
Peshawar High Court FATA Judgment Analysis (2014)Peshawar High Court FATA Judgment Analysis (2014)
Peshawar High Court FATA Judgment Analysis (2014)
 
FATA Reforms Commission Notification (May 2014)
FATA Reforms Commission Notification (May 2014)FATA Reforms Commission Notification (May 2014)
FATA Reforms Commission Notification (May 2014)
 
Mapping PCNA Investments in FATA (January 2014)
Mapping PCNA Investments in FATA (January 2014)Mapping PCNA Investments in FATA (January 2014)
Mapping PCNA Investments in FATA (January 2014)
 
Post-crisis Needs Assessment (PCNA) for FATA and Khyber Pakhtunkhwa (Septembe...
Post-crisis Needs Assessment (PCNA) for FATA and Khyber Pakhtunkhwa (Septembe...Post-crisis Needs Assessment (PCNA) for FATA and Khyber Pakhtunkhwa (Septembe...
Post-crisis Needs Assessment (PCNA) for FATA and Khyber Pakhtunkhwa (Septembe...
 
FATA Reforms News Update (April-May 2014)
FATA Reforms News Update (April-May 2014)FATA Reforms News Update (April-May 2014)
FATA Reforms News Update (April-May 2014)
 
2013 FATA Pre-election Briefing (February 2013)
2013 FATA Pre-election Briefing (February 2013)2013 FATA Pre-election Briefing (February 2013)
2013 FATA Pre-election Briefing (February 2013)
 
Analysis of 2013 FATA General Election Results (FAFEN report, January 2014)
Analysis of 2013 FATA General Election Results (FAFEN report, January 2014)Analysis of 2013 FATA General Election Results (FAFEN report, January 2014)
Analysis of 2013 FATA General Election Results (FAFEN report, January 2014)
 
Peshawar High Court Judgment on FATA Jurisdiction (April 2014)
Peshawar High Court Judgment on FATA Jurisdiction (April 2014)Peshawar High Court Judgment on FATA Jurisdiction (April 2014)
Peshawar High Court Judgment on FATA Jurisdiction (April 2014)
 
Social and Psychological Consequences of Violence in FATA (September 2013)
Social and Psychological Consequences of Violence in  FATA (September 2013)Social and Psychological Consequences of Violence in  FATA (September 2013)
Social and Psychological Consequences of Violence in FATA (September 2013)
 
Local Government in FATA: Failures, Challenges, Prospects (FATA Research Cent...
Local Government in FATA: Failures, Challenges, Prospects (FATA Research Cent...Local Government in FATA: Failures, Challenges, Prospects (FATA Research Cent...
Local Government in FATA: Failures, Challenges, Prospects (FATA Research Cent...
 
Local Government Reforms in Pakistan: Context, Content and Causes
Local Government Reforms in Pakistan: Context, Content and Causes Local Government Reforms in Pakistan: Context, Content and Causes
Local Government Reforms in Pakistan: Context, Content and Causes
 
Mainstreaming FATA: Defining, Democratizing and Developing (2009, Shaheed Bhu...
Mainstreaming FATA: Defining, Democratizing and Developing (2009, Shaheed Bhu...Mainstreaming FATA: Defining, Democratizing and Developing (2009, Shaheed Bhu...
Mainstreaming FATA: Defining, Democratizing and Developing (2009, Shaheed Bhu...
 
Impediments to Integrating FATA in Pakistan Mainstream (2009, Muhammad Tayyab...
Impediments to Integrating FATA in Pakistan Mainstream (2009, Muhammad Tayyab...Impediments to Integrating FATA in Pakistan Mainstream (2009, Muhammad Tayyab...
Impediments to Integrating FATA in Pakistan Mainstream (2009, Muhammad Tayyab...
 
FATA Reforms News Update (Nov 2013-Feb 2014)
FATA Reforms News Update (Nov 2013-Feb 2014)FATA Reforms News Update (Nov 2013-Feb 2014)
FATA Reforms News Update (Nov 2013-Feb 2014)
 
Pakistan travel noc factsheet for kp and fata
Pakistan travel noc factsheet for kp and fataPakistan travel noc factsheet for kp and fata
Pakistan travel noc factsheet for kp and fata
 
Drones, Spies, Terrorists and Second Class Citizenship in Pakistan (Christine...
Drones, Spies, Terrorists and Second Class Citizenship in Pakistan (Christine...Drones, Spies, Terrorists and Second Class Citizenship in Pakistan (Christine...
Drones, Spies, Terrorists and Second Class Citizenship in Pakistan (Christine...
 
All Bajaur Political Parties Alliance agenda and FATA reforms recommendations...
All Bajaur Political Parties Alliance agenda and FATA reforms recommendations...All Bajaur Political Parties Alliance agenda and FATA reforms recommendations...
All Bajaur Political Parties Alliance agenda and FATA reforms recommendations...
 
Voices from FATA #44 (June 2013)
Voices from FATA #44 (June 2013)Voices from FATA #44 (June 2013)
Voices from FATA #44 (June 2013)
 
Voices from FATA #43 (June 2013)
Voices from FATA #43 (June 2013)Voices from FATA #43 (June 2013)
Voices from FATA #43 (June 2013)
 
Jirga Monitor #9 (August 2013, English)
Jirga Monitor #9 (August 2013, English)Jirga Monitor #9 (August 2013, English)
Jirga Monitor #9 (August 2013, English)
 

Armed Forces, Taliban, FRC and Actions in Aid of Civil Power in FATA (Urdu report, Amnesty International, December 2012)

  • 1. ‫“ظلم کے‬ ‫ہاتھ”‬ ‫ ‬ ‫پاکستان کے قبائلی عالقوں‬ ‫میں مسلح افواج اور طالبان‬ ‫کی زیادتیاں - خالصہ‬ ‫1 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬ ‫04:75:51 2102/21/01‬
  • 2. ‫© اے پی فوٹو/ محمد سجاد‬ ‫“ظلم کے ہاتھ کی پہنچ تو قبائلی عالقوں تک ہوسکتی ہے‬ ‫لیکن انصاف کے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔”‬ ‫غالم نبی، وکیل پشاور ہائی کورٹ‬ ‫حراست ہالکتوں کے الزامات عائد کیے جاتے رہے‬ ‫نیاز کی رہائی کے چند گھنٹوں کے اندر اس کے کزن‬ ‫“پہلے پانچ دن انہوں نے ہمیں چمڑے کی بیلٹ سے‬ ‫ہیں۔ طالبان بالامتیاز حملے اور مغوی سپاہیوں‬ ‫بالل نے اسے بتایا کہ ایوب کو ایک مقامی ہسپتال منتقل‬ ‫کمر پر مسلسل پیٹا، درد اتنا تھا کہ بیان نہیں کیا‬ ‫اور جاسوسی کے الزام میں پکڑے ہوئے افراد کا‬ ‫کر دیا گیا ہے۔ نیاز وضاحت کرتے ہیں: “میں سمجھا‬ ‫جاسکتا ہے،” خوفزدہ نیاز کا فوج کے ہاتھوں تفتیش‬ ‫غیرقانونی قتل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قبائلی عالقوں‬ ‫کہ انہیں رہا کر دیا گیا ہے جوکہ خوشی کی بات ہے۔”‬ ‫کے بارے میں کہنا تھا۔ نیاز اور ان کے بھائی ایوب ان‬ ‫میں حکومتی رٹ کی عدم موجودگی میں امریکہ بغیر‬ ‫لیکن دوپہر بالل کا فون ایک بری خبر کے ساتھ آیا۔‬ ‫ہزاروں مردوں اور لڑکوں میں شامل ہیں جنہیں طالبان‬ ‫پائلٹ “ڈرون” طیاروں کے ذریعے “نشانہ بنا کر ہالک”‬ ‫“اس نے کہا کہ اس کے پاس ایوب کی الش ہے۔”‬ ‫کے سابق زیر کنٹرول عالقوں میں کارروائیوں کے‬ ‫کرنے کا ایک پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے جو‬ ‫بالل کے مطابق اسے ایک فوجی افسر نے بتایا کہ وہ‬ ‫دوران مسلح افواج نے پکڑا تھا۔‬ ‫حقوق انسانی کی خالف ورزیوں کی وجہ سے تشویش‬ ‫سیدو ٹیچنگ ہسپتال آجائے اور جب وہ وہاں پہنچا اور‬ ‫کا باعث بن رہا ہے خصوصا کیونکہ یہ پروگرام شفاف‬ ‫اس نے ایوب کی الش دیکھی تو اسے فوجی افسر نے‬ ‫“پانچ فوجی ہمیشہ ہر تفتیشی سیشن کے دوران موجود‬ ‫نہیں ہے۔‬ ‫بتایا کہ وہ فوجی حراست میں “حرکت قلب” بند ہونے‬ ‫رہتے۔ تمام فوجی یونیفارم میں ملبوث ہوتے لیکن ان‬ ‫کی وجہ سے فوت ہوگیا ہے۔‬ ‫میں سے ایک فوج کی پنجاب ریجمنٹ کے یونٹ ایف‬ ‫قبائلی عالقوں میں قانون کی حکمرانی میں بہتری کے‬ ‫ایف 6 سے صوبیدار (نان کمیشنڈ افسر) بولتا تھا۔‬ ‫لیے بجائے اس کے کہ پاکستان کے کرمنل جسٹس نظام‬ ‫جہاں تک ایمنسٹی انٹرنیشنل کو معلوم ہے، پاکستان فوج‬ ‫وہ مجھے طالبان کا حصہ ہونے کا اقرار نہ کرنے‬ ‫میں حقوق انسانی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے‬ ‫نے نیاز اور ایوب پر مبینہ تشدد یا ایوب کی دوران‬ ‫پر مار دینے کی دھمکی دیتا تھا۔ میں انہیں بتاتا تھا‬ ‫کوشش کی جاتی، حکام نے نیا سالمتی قانون ایکشنز‬ ‫فوجی حراست ہالکت کی کوئی تحقیقات نہیں کروائی‬ ‫کہ میرا ایک چچازاد شدت پسند تھا لیکن نہ میں اور‬ ‫(ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشن 1102 (اے اے سی‬ ‫ہیں۔‬ ‫نہ ایوب طالبان کا حصہ تھے۔ ہم محض کسان ہیں۔ یہ‬ ‫پی آر) متعارف کرایا ہے۔ یہ قانون سکیورٹی فورسز‬ ‫تردید سن کر صوبیدار چیخ پڑتا، تمھارا بھائی آج رات‬ ‫کو طویل، بالامتیاز اور انسدادی حراست کی اجازت‬ ‫ایک دہائی کے تشدد، کشیدگی اور مسلح تصادم کے‬ ‫مر جائے گا! اگر تم اسے آخری مرتبہ نہیں دیکھنا‬ ‫دیتا ہے جوکہ حقوق انسانی کے بین القوامی معیار کی‬ ‫بعد، پاکستان کو افغان سرحد پر واقع شمال مغربی‬ ‫چاہتے تو سچ بول دو۔”‬ ‫خالف ورزی ہے۔‬ ‫خطے میں حقوق انسانی کے جاری بحران کا سامنا ہے‬ ‫جہاں ریاستی اور غیرریاستی عناصر بغیر کسی روک‬ ‫اپریل دو ہزار دس کی ایک صبح، بھائی کے ساتھ‬ ‫ہائی کورٹس کے دائرے اختیار کو خصوصا حقوق‬ ‫ٹوک کے کارروائیاں کر رہے ہیں۔‬ ‫گرفتاری کے دس روز بعد نیاز کو وادی سوات میں‬ ‫انسانی کی پامالیوں کے مقدمات میں نہ بڑھانے سے یہ‬ ‫ایک فوجی اڈے کے حراستی مرکز سے رہا کر دیا گیا۔‬ ‫ریگولیشنز اس عالقے میں گرفت سے آذادی کے کلچر‬ ‫پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حراستوں، جبری‬ ‫“یہ اتنا جلد ہوا کہ مجھے ایوب کو خدا حافظ کہنے کا‬ ‫کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس خطے‬ ‫گمشدگیوں، تشدد اور دیگر بدسلوکیوں اور دوران‬ ‫موقع بھی نہیں مال۔”‬ ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬ ‫2102 ‬ ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬ ‫2 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬ ‫14:75:51 2102/21/01‬
  • 3. ‫3‬ ‫”ظلم کے ہاتھ“‬ ‫پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج‬ ‫اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ‬ ‫پاکستانی فوجی جنوبی وزیرستان کے قبائلی عالقے‬ ‫فوجی حراست میں ہالکت‬ ‫میں رونما ہونے والی دوران حراست ہالکتوں، جبری‬ ‫کھجوری کٹ کی چوٹی پر پوزیشن سنبھالتے ہوئے۔ جوالئی‬ ‫فروری دو ہزار گیارہ میں شام کی نماز سے کچھ دیر‬ ‫گمشدگیوں، تشدد اور دیگر بدسلوکیوں کے مقدمات کا‬ ‫دو ہزار گیارہ۔ ایکشنز (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشن‬ ‫قبل جہانزیب کو، جو خیبر پختونخوا کے صوابی میں‬ ‫بامعنی احتساب نہیں ہوسکا ہے۔‬ ‫1102 پاکستان کی مسلح افواج کو شورش زدہ قبائلی‬ ‫پولٹری فارمنگ کرتا تھا، گھر پر فوجیوں نے گرفتار‬ ‫عالقوں میں وسیع اختیارات دیتا ہے۔ ہزاروں بغیر کوئی‬ ‫کر لیا۔ یہ آخری مرتبہ تھی جب گھر والوں نے انہیں‬ ‫درج ذیل ایمنٹسی انٹرنیشنل کی رپورٹ “ظلم کے ہاتھ”:‬ ‫وجہ بتائے حراست میں لیے گئے ہیں۔ ان افراد پر تشدد‬ ‫زندہ دیکھا۔ ایک سال بعد ستائیس جون 2102 کو‬ ‫پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج اور طالبان‬ ‫اور دیگر بدسلوکیوں کا بلکہ دوران حراست ہالکت کا‬ ‫جہانزیب کی الش ضلع ہری پور میں ملی جو ان کے‬ ‫کی زیادتیاں کا خالصہ ہے۔ (2102/910/33 ‪.)ASA‬‬ ‫خطرہ ہے۔‬ ‫گھر سے اسی کلومیٹر کی دوری پر ہے، جہاں سے‬ ‫انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔‬ ‫تمام متاثرین اور ان کے رشتہ داروں کے نام ان کی‬ ‫شناخت کے تحفظ کے مدنظر تبدیل کر دئے گئے ہیں۔‬ ‫آج تک اس موت میں مسلح افواج کے مبینہ کردار کے‬ ‫بارے میں کوئی تفتیش نہیں ہوئی ہے۔ تاہم کئی شاہدین‬ ‫نے آخری مرتبہ انہیں فوجی حراست میں دیکھا اور‬ ‫پشاور ہائی کورٹ میں جہانزیب اور دوسروں کی‬ ‫غیرقانونی حراست سے متعلق پٹیشن میں بیان جمع‬ ‫کرایا ہے۔ اس مقدمے میں تحقیقات نہ ہونا یہ ثابت کرتا‬ ‫ہے کہ کیسے سکیورٹی فورسز ان عالقوں میں بغیر‬ ‫کسی پابندی کے سرگرم ہیں۔‬ ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل نے ایوب اور جہانزیب جیسے کئی‬ ‫واقعات کی تفصیالت جمع کی ہیں۔ ان تمام کیسوں میں‬ ‫سکیورٹی فورسز کی جانب سے گرفتار افراد اپنے‬ ‫خاندان کو یا تو مردہ حالت میں لوٹائی گئیں یا پھر ان‬ ‫کی الشیں شمال مغربی پاکستان کے دور دراز عالقے‬ ‫میں پھینک دی گئیں۔ حکام ان اموات کی وجوہات کے‬ ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬ ‫2102 ‬ ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬ ‫3 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬ ‫14:75:51 2102/21/01‬
  • 4. ‫”ظلم کے ہاتھ“‬ ‫4‬ ‫پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج‬ ‫اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ‬ ‫بعض خاص تحصیلوں (ضلعوں) یا دیہات میں تقریبا ہر ماہ آپ ایک الش‬ ‫دیکھتے ہیں جس کے ساتھ ایک نوٹ ہوتا ہے جن میں جاسوسی کا الزام‬ ‫عائد کیا گیا ہوتا ہے۔‬ ‫خیبر ایجنسی میں فرنٹئر کنسٹیبلری کے ایک افسر‬ ‫انصاف کی عدم موجودگی واضح کرتا ہے‬ ‫اذیت میں مبتال رہتے ہیں اور کسی احتساب کا بھی‬ ‫بارے میں جامع تحقیقات کرانے میں ناکام رہیں،‬ ‫کہ یہ ریگولیشنز قانون کی حکمرانی کو کمزور‬ ‫کوئی امکان نہیں۔‬ ‫رشتہ داروں کو کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا اور‬ ‫کرتے ہیں۔‬ ‫نہ ملوث افراد کے خالف قانونی کارروائی کا‬ ‫ظاہری طور پر نئے ریگولیشنز کا مقصد مسلح‬ ‫اہتمام کیا۔‬ ‫پاکستان کے پسماندہ ترین عالقوں میں سے ایک‬ ‫افواج کو قبائلی عالقوں میں طالبان اور دیگر‬ ‫قبائلی عالقے پاکستان کے آئین کے تحت بھی‬ ‫مسلح گروہوں کے خالف قانون کے اندر رہتے‬ ‫گرفتار افراد جنہیں زندہ رہا کر دیا جاتا ہے ان کو‬ ‫بنیادی حقوق کے تحفظ سے عاری ہیں۔ ایسی‬ ‫ہوئے کارروائی کریں۔ لیکن خالف ورزیوں کی‬ ‫دوران حراست سلوک کے بارے میں کھل کر بات‬ ‫ضمانت کی عدم موجودگی میں حقوق انسانی کی‬ ‫تشویش ناک تعداد جس میں اموات اور تشدد اور‬ ‫کرنے کی صورت میں ان کے اہل خانہ سمیت جان‬ ‫پامالیاں، اور ریاستی و غیرریاستی عناصر کی‬ ‫متاثرین یا جرم سرزد کرنے والوں کے لیے‬ ‫سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے جس سے وہ‬ ‫خالف ورزیوں کی اگر معنی خیز طریقے سے‬ ‫چھان بین نہیں کی جاتی اور اس میں ملوث افراد‬ ‫گلزار جان‬ ‫کو قرار واقع سزا نہیں دی جاتی ہے جس سے اس‬ ‫خطے میں حقوق انسانی کا بحران مزید سنگین‬ ‫جب ہم اُسے غسل دے رہے تھے تو میں نے نوٹ کیا‬ ‫الزام کی بنیاد پر پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا۔‬ ‫صورت اختیار کر گیا ہے۔‬ ‫کہ اس کی کمر پر کوڑوں کے نشانات تھے۔ پولیس‬ ‫ان کے اہل خانہ نے انہیں اس کے بعد دوبارہ زندہ‬ ‫نے صرف اتنا کہا کہ وہ قید کے دوران بیمار ہوئے‬ ‫نہیں دیکھا۔ حکام کو اڑھائی برس تک مداخلت کی‬ ‫حکومت پاکستان نے اگست 1102 میں اصالحات‬ ‫اور مر گئے۔” جہاں تک ایمنسٹی انٹرنیشنل آگاہ ہے،‬ ‫درخواستیں بےنتیجہ ثابت ہونے کے بعد سولہ اگست‬ ‫کے ایک محدود پیکج کا اعالن کیا تھا جس میں‬ ‫حکام نے ورثاء کی درخواستوں کے باوجود گلزار کی‬ ‫دو ہزار بارہ کی صبح گاؤں کے ایک شخص نے‬ ‫فرنٹئر کرائمز ریگولیشن میں معمولی بہتری‬ ‫موت کے بعد پوسٹ مارٹم یا تحقیقات نہیں کروائیں۔‬ ‫گلزار کے والد کو بتایا کہ اس کی الش مقامی تھانے‬ ‫متعارف کروائی گئی۔ یہ برطانیوی دور کا‬ ‫میں الئی گئی ہے۔ “جب میں نے اپنے بیٹے کو فوج‬ ‫نوآبادیاتی نظام انصاف ہے جو آج بھی عالقے میں‬ ‫کے حوالے کیا تو اس وقت وہ صحت مند تھا، اس کا‬ ‫رائج ہے۔ لیکن یہ اصالحات ضرورت سے بہت‬ ‫وزن پچاسی کلوگرام تھا،” ان کے والد نے ایمنٹسی‬ ‫کم ہیں جو حقوق انسانی کے بین القوامی قوانین پر‬ ‫انٹرنیشنل کو بتایا۔ “جب ان کی الش حوالے کی گئی‬ ‫عمل درآمد کو یقینی بنا سکتی ہیں اور ریگولیشنز‬ ‫تو وہ ایک تہائی بھی نہیں رہا تھا۔ تدفین سے قبل‬ ‫اسے مزید متاثر کرتی ہیں۔‬ ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬ ‫2102 ‬ ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬ ‫4 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬ ‫24:75:51 2102/21/01‬
  • 5. ‫5‬ ‫”ظلم کے ہاتھ“‬ ‫© رائٹرز/عمر میڈیا/ہینڈ آوٹ‬ ‫پاکستان کے قبائلی عالقوں میں مسلح افواج‬ ‫اور طالبان کی زیادتیاں - خالصہ‬ ‫طالبان جنگجو پاکستانی سپاہیوں کو جنہیں‬ ‫آتے ہیں۔ طالبان کی نیم عدالتی کارروائی بین‬ ‫طالبان زیادتیاں‬ ‫ٹانک سے چار جنوری دو ہزار بارہ میں اغوا‬ ‫القوامی حقوق انسانی کے معیار اور قوانین کے‬ ‫طالبان وسیع پیمانے پر حقوق انسانی کی‬ ‫کیا گیا تھا ہالک کرتے ہوئے۔‬ ‫تحت منصفانہ سماعت کے بنیادی معیار کو بھی‬ ‫خالف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‬ ‫پورا نہیں کرتے۔‬ ‫وہ پکڑے جانے والے سپاہیوں اور مبینہ‬ ‫جاسوسوں کے غیرقانونی قتل اور پاکستان‬ ‫بھر میں بالامتیاز حملے میں ملوث ہیں جن‬ ‫نذر‬ ‫میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہالک اور‬ ‫زخمی ہوئے ہیں۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ‬ ‫اس صبح بعد میں نذر کے بھائی امجد نے الش حاصل کی۔‬ ‫پندرہ مئی دو ہزار گیارہ کی صبح قبائلی عالقے‬ ‫خودکش حملے اور بم دھماکے خودساختہ بموں‬ ‫امجد کا کہنا تھا: “اس کا جسم تازہ تھا جیسے اسے‬ ‫شمالی وزیرستان کے نذر کو پاکستان فوج کے لیے‬ ‫(آئی ای ڈیز) کی مدد سے مارکیٹوں، مساجد،‬ ‫چند گھنٹوں قبل ہی ہالک کیا گیا ہو۔۔۔ لیکن الش انتہائی‬ ‫جاسوسی کے الزام میں طالبان نے غیرقانونی طور پر‬ ‫سکولوں اور دیگر پرہجوم مقامات پر کرتے‬ ‫مسخ شدہ تھی۔ اسے بظاہر اس کی بائیں کن پٹی پر‬ ‫قتل کر دیا۔ طالبان کے ایک جالد قاری ظفر کے جنہوں‬ ‫ہیں جو جان بوجھ کر یا پھر غیرارادی طور پر‬ ‫گولی ماری گئی تھی۔ اس کا گلہ جزوی کاٹا گیا تھا۔ اس‬ ‫نے یہ قتل دیکھا مطابق نذر کی الش کی طالبان نے‬ ‫شہریوں کی ہالکت کا سبب بنتے ہیں۔‬ ‫کے جسم پر جگہ جگہ خنجر سے کاٹنے کے نشانات‬ ‫بےحرمتی کی۔‬ ‫تھے۔ دو کٹ کے نشان اس کے ہاتھوں، ٹخنوں، کمر‬ ‫جن عالقوں میں ان کی گرفت ہے وہاں طالبان‬ ‫اور ٹانگوں پر اور نو کٹ کے نشان گردن پر تھے۔”‬ ‫قاری ظفر نے وضاحت کرتے کہا: “میں نے‬ ‫لوگوں کو غیرقانونی طور پر قتل کر رہے ہیں۔‬ ‫نذر کو دیگر دو (طالبان) جنگجوؤں کی مدد سے‬ ‫وہ بعض اوقات نیم عدالتی کارروائی اور باقی‬ ‫امجد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے سینے پر پشتو میں‬ ‫پکڑا۔ ان کی کالیاں ان کی پشت پر بندھی ہوئی تھیں۔‬ ‫مواقعوں پر کسی کارروائی کے بغیر ایسا کر‬ ‫ایک نوٹ چسپاں تھا جس میں لکھا تھا: “وہ سب جو‬ ‫ایک جنگجو نے اسے اس کے سر کی بائیں جانب‬ ‫رہے ہیں۔ بعض مواقعوں پر طالبان نے غیرقانونی‬ ‫جاسوسی کر رہے ہیں ان کا یہی حشر ہوگا۔” ان کا مزید‬ ‫سے گولی ماری اور وہ موقع پر ہی ہالک ہوگیا۔‬ ‫طور پر لوگوں کو جاسوسی کا الزام عائد کرکے‬ ‫کہنا تھا کہ طالبان کے خوف اور ان کے ہاتھوں قتل‬ ‫جنگجوؤں نے بعد میں اس کی الش کے ٹکڑے کئے‬ ‫یا فوجیوں کو پکڑ کر ہالک کیا۔ یہ قتل بین القوامی‬ ‫ہونے والوں کی بدنامی کی کیفیت یہ ہے کہ نذر کا جنازہ‬ ‫ان لوگوں کے لیے عبرت کے طور پر جو جاسوسی‬ ‫انسانی قوانین کی خالف ورزی اور زندہ رہنے‬ ‫کسی نے بھی پڑھنے سے انکار کر دیا۔‬ ‫کریں گے۔”‬ ‫جیسے حقوق انسانی کی پامالی کے زمرے میں‬ ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬ ‫2102 ‬ ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬ ‫5 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬ ‫24:75:51 2102/21/01‬
  • 6. ‫6‬ ‫قانونی اور عملی مسائل کے باوجود رشتہ دار‬ ‫انصاف کی راہ میں روکاوٹیں‬ ‫پاکستانی عدالتوں میں مقدمات الئے ہیں، جن میں‬ ‫پاکستانی سکیورٹی فورسز قبائلی عالقوں میں بغیر‬ ‫پاکستانی آئین میں بنیادی حقوق کے ضمانت کے قانون‬ ‫کسی روک ٹوک کے سرگرم ہیں۔ ایسے میں انہیں‬ ‫کی بنیاد پر مسلح افواج کی جانب سے غیرقانونی‬ ‫ایک ایسے قانونی فریم ورک کی مدد حاصل ہے‬ ‫حراست کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس قانون کے باوجود‬ ‫جس میں آئین اور نئے ریگولیشنز ملکی ہائی کورٹس‬ ‫عدالتوں نے ان مقدمات میں دائرے اختیار کا سہارا‬ ‫کو قبائلی عالقوں میں حقوق انسانی پر عمل درآمد‬ ‫لیا ہے۔‬ ‫کو یقینی بنانے سے روکتے ہیں۔ پاکستانی حکام اور‬ ‫“پشاور ہائی کورٹ میں تمام دائر‬ ‫عدالتوں نے ابھی تک پاکستان فوج، سکیورٹی فورسز‬ ‫ہونے والی پٹیشنوں جن میں یہ‬ ‫جون دو ہزار گیارہ میں پشاور ہائی کورٹ نے ایک‬ ‫اور خفیہ اداروں کے کسی رکن کو جبری گمشدگی،‬ ‫الزام ہوتا ہے کہ فالں کو ریاست‬ ‫اہم فیصلے میں حکام سے ریگولیشنز کے تحت زیر‬ ‫تشدد یا کسی اور بدسلوکی یا قبائلی عالقوں میں دوران‬ ‫حراست 0391 افراد کو فوری طور پر رہا کرنے یا‬ ‫حراست شخص کو غیرقانونی طور پر ہالک کرنے کے‬ ‫نے اٹھایا ہے وزارت دفاع اور‬ ‫انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ حکام نے‬ ‫مبینہ الزام کی تحقیقات یا اس کی بنیاد پر سزا نہیں دی‬ ‫داخلہ کو بھیجی جاتی ہیں جو بعد‬ ‫بعد میں عدالت کو بتایا کہ انہوں نے 5301 افراد‬ ‫ہے۔ ان میں وہ کیس بھی شامل ہیں جن کی نشان دہی‬ ‫میں دیگر وزارتوں اور سالمتی‬ ‫کو بےقصور ہونے کی وجہ سے رہا کر دیا ہے۔‬ ‫ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کی گئی تھی۔‬ ‫کے اہلکاروں کو مطلع کرتے ہیں۔۔۔‬ ‫0391 میں سے کم از کم 598 افراد “حراستی‬ ‫مراکز” میں ہیں جہاں ان پر تشدد اور ان کی موت کا‬ ‫نئے ریگولیشنز میں کسی بھی زیرحراست شخص کو‬ ‫اکثر وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ان‬ ‫خطرہ ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ انہیں عدالتوں میں‬ ‫ان سے سلوک کے متعلق شکایت کرنے کی گنجائش‬ ‫کے پاس نہیں ہیں۔”‬ ‫پیش کیا بھی جائے گا یا نہیں اور اگر کیا جائے گا‬ ‫موجود ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں‬ ‫اقبال مہمند، ڈپٹی اٹارنی جنرل، خیبر پختونخوا‬ ‫تو کب۔‬ ‫کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی واقعے میں یہ نظام تشدد‬ ‫اور بدسلوکی کو روکنے کے لیے موثر نہیں کیونکہ‬ ‫جنہیں رہا کیا گیا ہے انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل‬ ‫یہ آذاد نہیں اور فوجی اہلکار عدالتی کارروائی سے‬ ‫سے فوجی حکام کے خوف سے حراست کے دوران‬ ‫مستثنی ہیں۔ اس کے عالوہ یہ ریگلولیشز زیر حراست‬ ‫سلوک کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا ہے۔‬ ‫افراد کو ان کے حقوق سے محروم بھی کرتے ہیں‬ ‫ان مردوں اور لڑکوں کے وکالء کا کہنا ہے کہ انہیں‬ ‫کیونکہ یہ انہیں ان کے خاندان اور وکیل تک رسائی‬ ‫رہا کر دیا گیا ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی‬ ‫کی ضمانت نہیں دیتے ہیں۔‬ ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬ ‫2102 ‬ ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬ ‫6 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬ ‫44:75:51 2102/21/01‬
  • 7. ‫7‬ ‫© ایمنٹسی انٹرنیشنل‬ ‫انتہائی دائیں: فوجی کی جانب سے شمال مغربی پاکستان‬ ‫میں حراست میں لیے جانے والے مردوں اور لڑکوں کے‬ ‫رشتہ دار پشاور ہائی کورٹ میں اپنے پیاروں کے اتے پتے‬ ‫کی امید میں منتظر, اگست 2102.‬ ‫بائیں: ہر ماہ بےچین فضل خالق پشاور ہائی کورٹ کے میں‬ ‫سماعت کی تفصیل ٹٹولتا ہے اس امید میں کہ سرکاری وکیل‬ ‫اس کے بھائی فدا حسین سے متعلق کوئی معلومات پیش‬ ‫کریں گے۔ اکتوبر دو ہزار بارہ فضل اور حسین دونوں کو‬ ‫پاکستانی سکیورٹی فورسز نے شمالی مغربی ضلع نوشہرہ‬ ‫میں خیر آباد کے بازار سے گرفتار اور زیر حراست میں لیا‬ ‫تئیس مارچ دو ہزار بارہ کو۔ فضل کو اسی شب رہا کر دیا گیا‬ ‫لیکن حسین آج تک الپتہ ہے۔‬ ‫اور ہیں جنہیں حراست میں بغیر کسی عدالت میں‬ ‫پیشی کے رکھا جا رہا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ بھی‬ ‫اس سے بظاہر آگاہ ہے کہ کئی ابھی میں حراست میں‬ ‫ہیں: نومبر 2102 میں اس نے حکام کو حکم دیا کہ‬ ‫وہ اس کے سامنے زیر حراست افراد کی مکمل اور‬ ‫حتمی فہرست پیش کرے۔ یہ فہرست ابھی تک پیش‬ ‫نہیں کی گئی ہے۔‬ ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬ ‫2102 ‬ ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل فهرست‬ ‫7 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬ ‫44:75:51 2102/21/01‬
  • 8. ‫دائیں : پشاور ہائی کورٹ میں ایک عورت اپنے الپتہ بیٹے کی‬ ‫© ایمنٹسی انٹرنیشنل‬ ‫تصویر ہوئے ہے۔ اگست دو ہزار بارہ۔ وہ وہاں منتظر ہوتی ہے‬ ‫بیٹے سے متعلق کسی خبر کی۔ ان کے بیٹے کو مبینہ طور پر‬ ‫پاکستانی سکیورٹی فورسز نے اٹھایا تھا۔‬ ‫فرنٹ کور: ایک سپاہی پاکستان کے شمال مغربی عالقے‬ ‫خیبر ایجنسی میں میڈیا کے سامنے چہرے چھپائے ہوئے‬ ‫افراد کی نگرانی کر رہا ہے۔ دسمبر 2102۔ فوج کا کہنا ہے‬ ‫کہ یہ لوگ شدت پسند ہیں جنہیں قبائلی عالقوں میں کارروائی‬ ‫کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔‬ ‫© رائٹرز/کے۔پرویز‬ ‫سفارشات‬ ‫ایمنسٹی انٹرنیشنل حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتی‬ ‫ہے کہ وہ:‬ ‫‪ ‬وفاق اور صوبے کے زیر انتظام قبائلی عالقوں‬ ‫میں نافذ ایکشن (ان ایڈ آف سول پاور) ریگولیشنز‬ ‫1102 منسوخ کیا جائے۔‬ ‫‪ ‬فرنٹئر کرائمز ریگولیشن 1091 کو منسوخ کیا‬ ‫جائے یا اس میں ترامیم کریں تاکہ اسے پاکستان‬ ‫کی حقوق انسانی سے متعلق عالمی ذمہ داریوں کے‬ ‫مطابق بنایا جاسکے۔‬ ‫‪ ‬پاکستان کی ہائی کورٹس اور پارلیمان کے دائرہ‬ ‫اختیار کو پارلیمان کے ایکٹ کے تحت وفاق کے‬ ‫زیر انتظام قبائلی عالقوں تک بلترتیب پارلیمان کے‬ ‫ایکٹ اور صدر کے ایگزیکٹو حکم سے بڑھایا‬ ‫جائے۔‬ ‫‪ ‬قبائلی عالقوں میں انتظامی حراستوں کے نظام‬ ‫کو ختم کیا جائے۔‬ ‫‪ ‬دوران حراست ہالکت اور تشدد اور بدسلوکی،‬ ‫جبری گمشدگیوں کی فوری، آذادنہ، غیرجانبدارانہ‬ ‫جامع تحقیقات کروائی جائیں اور اس بات کو یقینی‬ ‫بنائیں کہ ان تحقیقات کا عوامی جانچ پڑتال بھی‬ ‫پامالیوں کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ حکومت پاکستان‬ ‫نتیجہ‬ ‫ممکن ہو۔‬ ‫کی جانب سے قبائلی عالقوں میں حقوق انسانی کو‬ ‫ایمنسٹی انٹرنیشنل اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ‬ ‫یقینی بنانے کے لیے اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے‬ ‫پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سرحد پر شورش‬ ‫‪ ‬قبائلی عالقوں میں حقوق انسانی میں ملوث‬ ‫تو اس خطے کے الکھوں لوگ القانونیت کی دلدل میں‬ ‫جیسے ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ حکومت کو‬ ‫تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں الیا جائے۔‬ ‫پھنسے رہیں گے۔‬ ‫ان عالقوں میں سول اختیار بحال کرنا تھا۔ اسے یہاں‬ ‫ان میں مسلح افواج کے ملزم قرار دیے جانے‬ ‫اس لڑائی اور تین برسوں کے مسلسل سیالب سے‬ ‫والوں اور طالبان بھی شامل ہوں۔ ان کے خالف‬ ‫تباہ حال انفراسٹرکچر کو بحال کرنا تھا۔ البتہ مسلح‬ ‫منصفانہ مقدمہ چلے جس میں سزاِے موت کی‬ ‫افواج کی جانب سے خالف ورزیوں کو ریگولیشنز‬ ‫گنجائش نہ ہو۔‬ ‫کے تحت قانونی تحفظ دینا اور قانون کے ہاتھوں‬ ‫کو قبائلی عالقوں تک نہ بڑھانے سے حکام نے‬ ‫سکیورٹی فورسز اور طالبان کو حقوق انسانی کی‬ ‫دسمبر: 2102/020/33 ‪ASA‬‬ ‫ایمنٹسی انٹرنیشنل ایک عالمی تحریک ہے۔ اس کے ڈیڑھ سو سے زائد ممالک‬ ‫‪Urdu‬‬ ‫اور خطوں میں تیس الکھ حامی، اراکین اور سرگرم کارکن حقوق انسانی کی‬ ‫2102‬ ‫فهرست‬ ‫شدید خالف ورزیوں کے خاتمے کے لیے متحرک ہیں۔‬ ‫‪Amnesty International‬‬ ‫‪International Secretariat‬‬ ‫ہماری کوشش ہے کہ ہر شخص کو وہ تمام حقوق میسر ہوں جن کا ذکر حقوق‬ ‫‪Peter Benenson House‬‬ ‫1 ‪Easton Street‬‬ ‫انسانی کے عالی اعالمیے اور انسانی حقوق کے بین القوامی معیار میں ہے۔‬ ‫‪London WC1X 0DW‬‬ ‫‪United Kingdom‬‬ ‫ہم کسی بھی حکومت، سیاسی نظریے، اقتصادی مفاد یا مذہب سے آذاد ہیں اور‬ ‫‪amnesty.org‬‬ ‫ہمارے اخراجات ممبرشپ اور عوامی عطیات سے پورے کئے جاتے ہیں۔‬ ‫8 ‪Urdu 4026_Pakistan FATA_Sum.indd‬‬ ‫64:75:51 2102/21/01‬